تیرے گھر کی بھی وہی دیوار تھی دروازہ تھا
پھر وہی باتیں ہوئیں جن کا مجھے اندازہ تھا
سرد پتھر جاں فزا ملبوس میں لپٹے ہوئے
ہائے وہ دنیا جہاں چہرے نہ تھے غازہ تھا
ہر نفس روشن ہوا میرے لہو کے رنگ سے
زندگی کیا تھی مرا بکھرا ہوا شیرازہ تھا
رہ گئی ہیں اب مرے ہاتھوں میں سوکھی پتیاں
صبر کی طاقت کہاں تھی پھول جب تک تازہ تھا
سوچتے رہتے تھے کیوں تار نفس کٹتا نہیں
بے طلب جینا ہمارے جرم کا خمیازہ تھا
جو بلاتی تھی مجھے صحن گلستاں کی طرف
پھول کی خوشبو نہیں تھی برق کا آوازہ تھا
جب چڑھے دریا پہاڑوں کو بہا کر لے گئے
ڈر رہے تھے سب مگر اتنا کسے اندازہ تھا