کسی صورت مسافت میں کمی ہونے نہیں دیتے
شجر بے درد ہیں چھاؤں گھنی ہونے نہیں دیتے
سحر ہوتے ہی ہر جانب دھواں سا پھیل جاتا ہے
یہ بادل اس نگر میں روشنی ہونے نہیں دیتے
وہ روز و شب ہمیں اعزاز پر اعزاز دیتے ہیں
مگر احساس ذلت میں کمی ہونے نہیں دیتے
تعلق کچھ بھی ہو قائم حد فاصل تو رہتی ہے
وہ ہم سے دوستی یا دشمنی ہونے نہیں دیتے
بجھا دیتے ہیں جو جلتا چمکتا جاگتا سورج
کسی کو رات کا احساس بھی ہونے نہیں دیتے
وہ سیل تند خو ہیں برق کی صورت گزرتے ہیں
کوئی دیوار رستے میں کھڑی ہونے نہیں دیتے
جلا کر خاک کر دیتے ہیں جو تازہ شگوفوں کو
وہ سورج ہیں جہاں میں تیرگی ہونے نہیں دیتے
وہ ہم کو نت نئے خوابوں کے آئینے دکھاتے ہیں
مگر امید کی صورت گری ہونے نہیں دیتے
اسے جانے نہیں شہزادؔ دیتے ہم تصور سے
کبھی ویران ہم دل کی گلی ہونے نہیں دیتے