ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر
بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اڑان پر
آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
پوچھو سمندروں سے کبھی خاک کا پتہ
دیکھو ہوا کا نقش کبھی بادبان پر
یارو میں اس نظر کی بلندی کو کیا کروں
سایہ بھی اپنا دیکھتا ہوں آسمان پر
کتنے ہی زخم ہیں مرے اک زخم میں چھپے
کتنے ہی تیر آنے لگے اک نشان پر
جل تھل ہوئی تمام زمیں آس پاس کی
پانی کی بوند بھی نہ گری سائبان پر
ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر
سایہ نہیں تھا نیند کا آنکھوں میں دور تک
بکھرے تھے روشنی کے نگیں آسمان پر
حق بات آ کے رک سی گئی تھی کبھی شکیبؔ
چھالے پڑے ہوئے ہیں ابھی تک زبان پر
© 2024 Pakistanify Media - Navigating The World of Information