خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے
شکیب جلالی

خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے

یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے

ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں

میں رستہ بھول جاؤں جنگلوں میں شام ہو جائے

میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں

خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ہو جائے

مثال ایسی ہے اس دور خرد کے ہوش مندوں کی

نہ ہو دامن میں ذرہ اور صحرا نام ہو جائے

شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے

ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

Pakistanify News Subscription

X