وہی جھکی ہوئی بیلیں وہی دریچہ تھا
مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا
میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے
وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا
شب سفر تھی قبا تیرگی کی پہنے ہوئے
کہیں کہیں پہ کوئی روشنی کا دھبا تھا
یہ آڑی ترچھی لکیریں بنا گیا ہے کون
میں کیا کہوں مرے دل کا ورق تو سادا تھا
میں خاکداں سے نکل کر بھی کیا ہوا آزاد
ہر اک طرف سے مجھے آسماں نے گھیرا تھا
ادھر سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی
کہ زیر سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا
وہ اس کا عکس بدن تھا کہ چاندنی کا کنول
وہ نیلی جھیل تھی یا آسماں کا ٹکڑا تھا
میں ساحلوں میں اتر کر شکیبؔ کیا لیتا
ازل سے نام مرا پانیوں پہ لکھا تھا
© 2024 Pakistanify Media - Navigating The World of Information