مطلب کی تم سنو تو ذرا کوئی کچھ کہے
داغؔ دہلوی

مطلب کی تم سنو تو ذرا کوئی کچھ کہے

جب بے سنے خفا ہو تو کیا کوئی کچھ کہے

ہم آپ چھیڑ چھیڑ کے کھاتے ہیں گالیاں

کانوں کو پڑ گیا ہے مزہ کوئی کچھ کہے

بندے ہیں ہم تو عشق کے اے شیخ و برہمن

پروا نہیں ہمیں بخدا کوئی کچھ کہے

کم بخت نامراد تو مدت سے ہے خطاب

جی چاہتا ہے اس سے سوا کوئی کچھ کہے

ناصح کہے سنے پہ ہمارا نہیں عمل

جو جی میں آ گیا وہ کیا کوئی کچھ کہے

اے داغؔ اس کی بزم میں ہم گل کھلائیں گے

اس کا ہے انتظار ذرا کوئی کچھ کہے

Pakistanify News Subscription

X