ہم اپنے ہی سر لیں گے مصیبت ہو کسی کی
داغؔ دہلوی

ہم اپنے ہی سر لیں گے مصیبت ہو کسی کی

آئے گی اسی جان پہ آفت ہو کسی کی

ہم لطف کے رتبے کو ابھی جانچ رہے ہیں

دل دیں اگر ایسی ہی عنایت ہو کسی کی

کیوں وصل کی شب ہاتھ لگانے نہیں دیتے

معشوق ہو یا کوئی امانت ہو کسی کی

اے نامہ بر احوال غم ہجر تو لکھ دوں

ایسا نہ ہو میری ہی سی حالت ہو کسی کی

لڑنا کبھی ملنا کبھی آنا کبھی جانا

تم شوخ ہو یا شوخ طبیعت ہو کسی کی

لو رہنے دو تسکیں کے لئے غیر کی تصویر

شاید جو نہ ہوں میں تو ضرورت ہو کسی کی

یہ داغؔ ہماری نہیں سنتا نہیں سنتا

ایسی بھی الٰہی نہ بری مت ہو کسی کی

Pakistanify News Subscription

X