طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی
داغؔ دہلوی

طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی

چڑھی ہے یہ آندھی اتر جائے گی

رہیں گی دم مرگ تک خواہشیں

یہ نیت کوئی آج بھر جائے گی

رہے پیروی ہجر ہو یا وصال

کہ اک بات آخر ٹھہر جائے گی

محبت میں اے دل نہ ڈر سر پہ کھیل

وہ بازی نہیں یہ کہ ہر جائے گی

نہ گزری شب ہجر سمجھے تھے ہم

تڑپتے پھڑکتے گزر جائے گی

دیا دل تو اے داغؔ اندیشہ کیا

گزرنی جو ہوگی گزر جائے گی

Pakistanify News Subscription

X