تلوار تری رواں بہت ہے
تھوڑا بھی تو امتحاں بہت ہے
کچھ آہ کے حوصلہ نکلتے
نیچا مگر آسماں بہت ہے
دامن پہ ترے لگی رہی خاک
اتنا ہی مرا نشاں بہت ہے
دل تنگ سہی پر اے تمنا
مر رہنے کو یہ مکاں بہت ہے
اک کوہ گراں ہے عشق لیکن
اس کو دل ناتواں بہت ہے
الفت میں نہیں ہے صبر نایاب
یہ چیز مگر گراں بہت ہے
باطن کی خبر خدا کو ہے داغؔ
ظاہر میں وہ مہرباں بہت ہے