دل لے چلا ہے باندھ کے دل بر کے روبرو
جاتا ہے اک اسیر ستم گر کے روبرو
اس بت میں اک خدائی کا جلوہ ہے ورنہ شیخ
سجدہ کئے سے فائدہ پتھر کے روبرو
آنسو بہا رہا ہوں خط یار پڑھ کے میں
یوں دانہ ڈالتا ہوں کبوتر کے روبرو
حاصل ہوئی بھی عقل فلاطوں اگر تو کیا
چلتی نہیں کسی کی مقدر کے روبرو
اے داغؔ ہوگا ہم سے کسی کا جواب کیا
مقدار چشم کیا ہے سمندر کے روبرو