گرہ جو پڑ گئی رنجش میں وہ مشکل سے نکلے گی
نہ ان کے دل سے نکلے گی نہ میرے دل سے نکلے گی
نہیں دشوار کچھ اپنے مکاں سے لا مکاں جانا
وہیں پہنچائے گی جو راہ جس منزل سے نکلے گی
مری کشتی اگر چھوٹے گی دریائے محبت میں
تو سب سے پہلے بسم اللہ لب ساحل سے نکلے گی
بڑی سختی سے میری جان نکلی ہے کئی دن میں
یکایک لاش کیوں کر کوچۂ قاتل سے نکلے گی
ترشتے ہیں قیامت کے غضب کے رات دن فقرے
نئی جب بات نکلے گی تری محفل سے نکلے گی
رموز عاشقی کو عاشقو تم داغؔ سے پوچھو
کہ باریکی میں باریکی اسی کامل سے نکلے گی