شوق ہے اس کو خود نمائی کا
اب خدا حافظ اس خدائی کا
ہنسی آتی ہے اپنے رونے پر
اور رونا ہے جگ ہنسائی کا
اور تو ہم کو کچھ نہیں آتا
کام کرتے ہیں آشنائی کا
دل ترا صاف ہو نہیں سکتا
ہیچ ہے محکمہ صفائی کا
بت کدہ کی جو سیر کی ہم نے
کارخانہ ہے اک خدائی کا
گرچہ پہنچا ہوں میں کہیں سے کہیں
مرحلہ دور ہے رسائی کا
نہ رہا لطف اس زمانے میں
میرزا داغؔ میرزائی کا