جائے آسودگی کہاں ہے آج
داغؔ دہلوی

جائے آسودگی کہاں ہے آج

جو زمیں کل تھی آسماں ہے آج

تم وہاں تھے تو دل وہاں تھا کل

تم یہاں ہو تو دل یہاں ہے آج

عشق کو ابتدا میں ہم سمجھے

فتنۂ آخر الزماں ہے آج

کل ادا دل کا حال ہو کہ نہ ہو

سن لو گویا مری زباں ہے آج

آرزو وصل کی شہید ہوئی

ماتم مرگ نوجواں ہے آج

اس ہدف پر لگائیں گے وہ تیر

دل نشیں داغؔ کا نشاں ہے آج

Pakistanify News Subscription

X