جور کے بعد ہے کیوں لطف یہ عادت کیا ہے
تم تلافی جو کرو اس کی ضرورت کیا ہے
ایک دن مان ہی جاؤ گے ہمارا کہنا
تم کہے جاؤ یہی تیری حقیقت کیا ہے
وعدۂ وصل سے انکار ہے تو قتل کرو
تم سے ہم پوچھتے ہیں اس میں قباحت کیا ہے
بوسہ مانگا تو کہا اس نے بدل کر چتون
آپ کو یہ بھی خبر ہے مری عادت کیا ہے
ہائے کیا تھا وہ زمانہ کہ تم آگاہ نہ تھے
شکر کس چیز کو کہتے ہیں شکایت کیا ہے
کیا کہوں کس سے کہوں دل کی حقیقت اے داغؔ
سب یہی پوچھتے ہیں کہئے تو حضرت کیا ہے