کب بات ہو بغیر خوشامد وہاں درست
وہ نادرست بھی جو کہیں کہیے ہاں درست
تھوڑے سے دن بہار کے ہیں کس امید پر
کرتے ہیں اپنے مرغ چمن آشیاں درست
کچھ میں بھی اپنا حال طبیعت بیاں کروں
گر ہو مزاج آپ کا اے مہرباں درست
اس کو درستیٔ دل عاشق سے کیا غرض
جس بد زبان کی نہیں اب تک زباں درست
آنکھوں میں رہ کہ دل میں ٹھہر تیرے واسطے
آراستہ ہر ایک مکاں ہر مکاں درست
ہر روز تازیانۂ زلف دراز سے
تو نے بھی دل کو خوب کیا میری جاں درست
آتا ہے سامنے جو وہ غارت گر شکیب
اوسان داغؔ رہتے ہیں اپنے کہاں درست