میرے ہی دم سے مہر و وفا کا نشاں ہے اب
داغؔ دہلوی

میرے ہی دم سے مہر و وفا کا نشاں ہے اب

تجھ سا اگر نہیں ہے تو مجھ سا کہاں ہے اب

اس حال کو پہنچ گئیں دل کی خرابیاں

تیرا مکاں ہے اب نہ خدا کا مکاں ہے اب

جاتی ہے آدھی رات مگر اس کا کیا جواب

گھبرا کے وہ یہ کہتے ہیں وقت اذاں ہے اب

سینے سے میرے دست تسلی اٹھائیے

یہ بھی دل نحیف کو بار گراں ہے اب

دیکھو ذرا سی شرم نے سب کچھ مٹا دیا

وہ آنکھ وہ نگاہ وہ چتون کہاں ہے اب

کیا لطف دوستی کہ نہیں لطف دشمنی

دشمن کو بھی جو دیکھیے پورا کہاں ہے اب

تم کو یقیں نہیں تو نہ ہو اس کا کیا علاج

کم بخت داغؔ تم سے بہت بد گماں ہے اب

Pakistanify News Subscription

X