نفرت ہے حرف وصل سے اچھا یوہیں سہی
داغؔ دہلوی

نفرت ہے حرف وصل سے اچھا یوہیں سہی

لو آؤ اور بات سنو وہ نہیں سہی

چھوڑوں گا میں نہ ہاتھ چلے آؤ ساتھ ساتھ

نازک کلائی دکھتی ہے تو آستیں سہی

مشق جفا کے واسطے کس کی تلاش ہے

کوئی اگر نہیں ہے تو یہ کمتریں سہی

اقرار کر کے گھورتے ہو کیوں مری طرف

باور سہی یقین سہی دل نشیں سہی

بیداد کر کے چاہتے ہو پھر جفا کی داد

بہتر بجا درست صحیح آفریں سہی

سجدے ہی کرتے جائیں گے ہم تیری راہ میں

ہے نقش پا سے عار تو نقش جبیں سہی

بے دل لگی بھی داغؔ گزرنی محال ہے

وہ دل نہیں سہی وہ تمنا نہیں سہی

Pakistanify News Subscription

X