گئے دنوں کے درخشندہ رابطوں سے نہ روٹھ
عرفان صدیقی

گئے دنوں کے درخشندہ رابطوں سے نہ روٹھ

مرے خلوص کے تابندہ سلسلوں سے نہ روٹھ

محبتوں کی وفا کیش بارشوں سے نہ روٹھ

کسی سے روٹھ مگر اپنے دوستوں سے نہ روٹھ

خزاں کی زرد ہوائیں تری تلاش میں ہیں

چمن سے روٹھ درختوں کی ٹہنیوں سے نہ روٹھ

پلٹ نہ جائیں ہمیشہ کو تیرے آنگن سے

گداز لمحوں کی بے خواب آہٹوں سے نہ روٹھ

عزیز جان کھلی کھڑکیوں کی خوشبو کو

گلی سے ترک مراسم سہی گھروں سے نہ روٹھ

گمان و وہم کے بے نام جھٹپٹوں سے نکل

زباں نہ کھول مگر دل کی دھڑکنوں سے نہ روٹھ

جواں رتوں کو گلے سے لگا کے جی عرفانؔ

دل و نظر کے ضیا بار موسموں سے نہ روٹھ

Pakistanify News Subscription

X