جام تہی لہرایا ہم نے
کیسا جشن منایا ہم نے
رات ہوا کے ساتھ نکل کر
حلقۂ در کھڑکایا ہم نے
چپ گلیوں میں دیں آوازیں
شہر میں شور مچایا ہم نے
خاک تھے لیکن لہر میں آ کر
رقص جنوں فرمایا ہم نے
دیکھیں کب ہوں عشق میں کندن
راکھ تو کر دی کایا ہم نے
عمر شرر بے کار نہ گزری
پل بھر تو چمکایا ہم نے
سب کو نشانہ کرتے کرتے
خود کو مار گرایا ہم نے
تم سے ملے تو خود سے زیادہ
تم کو اکیلا پایا ہم نے
اپنے سر کی آن پہ واری
پاؤں سے لپٹی مایا ہم نے
اے شب ہجراں اب تو اجازت
اتنا ساتھ نبھایا ہم نے