کیف سا اب ہو گیا پیدا غم ایام میں
عبد الحمید عدم

کیف سا اب ہو گیا پیدا غم ایام میں

کیا طلسم سر خوشی ہے دور صبح و شام میں

خود فریبی کے سہارے زندگی کٹتی رہی

آسرا ملتا رہا دل کو امید خام میں

زندگی کی عارضی خوشیوں پہ ہم مرتے نہیں

ہم کو جینا آ گیا دور غم و آلام میں

اک اشارہ چاہئے ساقی کی چشم مست کا

دونوں عالم کو ڈبو سکتا ہوں اپنے جام میں

اللہ اللہ میری چشم شوق کی یک بینیاں

ایک تم ہی تم نظر آتے ہو بزم عام میں

رقص کرتا ہے تری آنکھوں میں یوں جوش شباب

کیف جیسے جھومتا ہے بادۂ گلفام میں

زندگی میں اس قدر رسوا ہوئے فرحتؔ کہ اب

پردہ پوشی ڈھونڈتے ہیں موت کے پیغام میں

Pakistanify News Subscription

X