جو بندۂ خدا تھا خدا ہونے والا ہے
کیا کچھ ابھی تو جلوہ نما ہونے والا ہے
یہ بھی درست ہے کہ پیمبر نہیں ہوں میں
ہے یہ بھی سچ کہ میرا کہا ہونے والا ہے
کچھ اشک خوں بچا کے بھی رکھیے کہ شہر میں
جو ہو چکا ہے اس سے سوا ہونے والا ہے
وہ وقت ہے کہ خلق پہ ہر ظلم ناروا
اللہ کا نام لے کے روا ہونے والا ہے
اک خوف ہے کہ ہونے ہی والا ہے جا گزیں
اک خواب ہے کہ سب سے جدا ہونے والا ہے
رنگ ہوا میں ہے عجب اسرار سا کوئی
کوئی بھی جانتا نہیں کیا ہونے والا ہے
خوش تھا سیاہ خانۂ دل میں بہت لہو
اس قید سے مگر یہ رہا ہونے والا ہے
یہ تیر آخری ہے بس اس کی کمان میں
اور وہ بھی دیکھ لینا خطا ہونے والا ہے
اک لہر ہے کہ مجھ میں اچھلنے کو ہے ظفرؔ
اک لفظ ہے کہ مجھ سے ادا ہونے والا ہے