الزام ایک یہ بھی اٹھا لینا چاہیئے
ظفر اقبال

الزام ایک یہ بھی اٹھا لینا چاہیئے

اس شہر بے اماں کو بچا لینا چاہیئے

یہ زندگی کی آخری شب ہی نہ ہو کہیں

جو سو گئے ہیں ان کو جگا لینا چاہیئے

وہ کس طرف چلا ہے لگائے کوئی سراغ

میں کس طرف رواں ہوں پتا لینا چاہیئے

یعنی قمار عشق میں کیا کچھ ہے داؤ پر

اس راز وا شگاف کو پا لینا چاہیئے

کیسا ہے کون یہ تو نظر آ سکے کہیں

پردہ یہ درمیاں سے ہٹا لینا چاہیئے

دل پر جو یادگار رہے اس کے مکر کی

ایسا بھی کوئی نقش بنا لینا چاہیئے

اس طرح بھی چلا ہے کبھی کاروبار شوق

روٹھے کوئی تو اس کو منا لینا چاہیئے

کیجیے نہ کیوں مطالبۂ وصل اے ظفرؔ

کی ہے وفا تو اس کا صلہ لینا چاہیئے

Pakistanify News Subscription

X