جہاں نگار سحر پیرہن اتارتی ہے
ظفر اقبال

جہاں نگار سحر پیرہن اتارتی ہے

وہیں پہ رات ستاروں کا کھیل ہارتی ہے

شب وصال ترے دل کے ساتھ لگ کر بھی

مری لٹی ہوئی دنیا تجھے پکارتی ہے

شمار شوق میں الجھی ہوئی شعاع نظر

ہزار روٹھتے رنگوں کے روپ دھارتی ہے

افق سے پھوٹتے مہتاب کی مہک جیسے

سکون بحر میں اک لہر سی ابھارتی ہے

پس دریچۂ دل یاد بوئے جوئے نشاط

نہ جانے کب سے کھڑی کاکلیں سنوارتی ہے

در امید سے ہو کر نکلنے لگتا ہوں

تو یاس روزن زنداں سے آنکھ مارتی ہے

جہاں سے کچھ نہ ملے حسن معذرت کے سوا

یہ آرزو اسی چوکھٹ پہ شب گزارتی ہے

جو ایک جسم جلاتی ہے برق ابر خیال

تو لاکھ زنگ زندہ آئنے نکھارتی ہے

Pakistanify News Subscription

X