ایک ہی نقش ہے جتنا بھی جہاں رہ جائے
ظفر اقبال

ایک ہی نقش ہے جتنا بھی جہاں رہ جائے

آگ اڑتی پھرے ہر سو کہ دھواں رہ جائے

کچھ غرض اس سے نہیں رزق گدا ہو کہ نہ ہو

کوچہ و راہ میں آواز سگاں رہ جائے

یہ سفر وہ ہے کہ اتنا بھی غنیمت ہے اگر

اپنے ہمراہ یہی خاک رواں رہ جائے

اور کچھ روز رکے سست لہو کا موسم

اور کچھ دیر یہی رنگ خزاں رہ جائے

آج کل اس کی طرح ہم بھی ہیں خالی خالی

ایک دو دن اسے کہیو کہ یہاں رہ جائے

کچھ تو رہ جائے تگ و تاز طلب میں باقی

وہم اپنا رہے یا اس کا گماں رہ جائے

وہ تمنا ہوں کہ دل سے نہ گزر ہو جس کا

وہ تماشا ہوں کہ نظروں سے نہاں رہ جائے

یہ بھی اک مرحلۂ سخت ہے اے صاحب طرز

کہ بیاں کی جگہ انداز بیاں رہ جائے

نام تو پھر بھی بڑی بات ہے دنیا میں ظفرؔ

یہ بھی کیا کم ہے جو کچھ اپنا نشاں رہ جائے

Pakistanify News Subscription

X