دل کو رہین بند قبا مت کیا کرو
ہے لا علاج اس کی دوا مت کیا کرو
ویسے تو اختیار ہے سارا تمہیں مگر
جو ناروا ہے اس کو روا مت کیا کرو
توفیق تو ہوئی نہیں خیرات کی کبھی
کہتے ہیں اس گلی میں صدا مت کیا کرو
جو مل گئے ہیں ان کی تواضع کو چھوڑ کر
جو کھو گئے ہیں ان کا پتا مت کیا کرو
اس کا معاملہ ہے جدا وضع ہی کچھ اور
دل میں حساب تنگی جا مت کیا کرو
کچھ اور لوگ ہیں یہاں اس کام کے لیے
واجب ہے جو بھی قرض ادا مت کیا کرو
جیسا بھی ہے وہ یار ہے اپنا کھلا ڈلا
کچھ اس لیے بھی خوف خدا مت کیا کرو
سچ ہے کہ ہم سے بات بھی کرنا نماز ہے
گر ہو سکے تو اس کو قضا مت کیا کرو
تم سے تو ہے ظفرؔ کا بس اتنا مطالبہ
خود سے اسے زیادہ جدا مت کیا کرو