ہم نے آواز نہ دی برگ و نوا ہوتے ہوئے
ظفر اقبال

ہم نے آواز نہ دی برگ و نوا ہوتے ہوئے

اور ملنے نہ گئے اس کا پتا ہوتے ہوئے

آنکھ کے ایک اشارے سے کیا گل اس نے

جل رہا تھا جو دیا اتنی ہوا ہوتے ہوئے

ایک پتا سا لرزتا ہوں سر شاخ گماں

اپنے ہر سو کوئی طوفان بلا ہوتے ہوئے

چل رہے ہوتے ہیں دھارے کئی دریا میں سو ہم

سب میں شامل بھی رہے سب سے جدا ہوتے ہوئے

وقت پر آ کے برس تو گئے بادل لیکن

دیر ہی لگ گئی جنگل کو ہرا ہوتے ہوئے

ہم بھلا داد سخن کیوں نہیں چاہیں گے کہ وہ

آپ تعریف کا طالب ہے خدا ہوتے ہوئے

کچھ ہمیں بھی خبر اس کی نہ ہوئی خاص کہ ہم

کیا سے کیا ہوتے گئے اصل میں کیا ہوتے ہوئے

بات کا اور بھی ہو سکتا ہے مطلب اور پھر

لفظ تبدیل بھی ہوتا ہے ادا ہوتے ہوئے

کیا زمانہ ہے کہ اس گنبد بے در میں ظفرؔ

اپنی آواز کو دیکھا ہے فنا ہوتے ہوئے

Pakistanify News Subscription

X