حد ہو چکی ہے شرم شکیبائی ختم ہو
ظفر اقبال

حد ہو چکی ہے شرم شکیبائی ختم ہو

بہتر ہے اب دعا کی پذیرائی ختم ہو

لیں گے حساب مجھ سے ابھی لفظ لفظ کا

یعنی ذرا یہ انجمن آرائی ختم ہو

دیکھا ہے اس نواح میں وہ کچھ کہ اے خدا

اب تو یہی دکھا کہ یہ بینائی ختم ہو

ممکن ہے منتظر ہو کوئی خاک خوش خصال

شاید کہیں یہ ساحل رسوائی ختم ہو

ہے دود خاک دار بہت پاک ہو ہوا

پانی ہے زیر بار بہت کائی ختم ہو

خوش رنگ میں گھلا ہوا بد رنگ ہو جدا

اور شور میں چھپی ہوئی تنہائی ختم ہو

اپنے مقابل آپ ہی آ جاؤں گا کبھی

تنگ آ چکا ہوں اب مری یکتائی ختم ہو

آکر وہ میری بات سنے اور جواب دے

گر یوں نہیں تو پھر یہ شناسائی ختم ہو

بازار بوسہ تیز سے ہے تیز تر ظفرؔ

امید تو نہیں کہ یہ مہنگائی ختم ہو

Pakistanify News Subscription

X