کشتی ہوس ہواؤں کے رخ پر اتار دے
ظفر اقبال

کشتی ہوس ہواؤں کے رخ پر اتار دے

کھوئے ہوؤں سے مل یہ دلدر اتار دے

بے سمت کی اڑان ہے شوخی شباب کی

اس چھت پہ آج تو یہ کبوتر اتار دے

میں اتنا بد معاش نہیں یعنی کھل کے بیٹھ

چبھنے لگی ہے دھوپ سوئیٹر اتار دے

دن رات یوں نہ خوف کا گٹھر اٹھائے پھر

یہ بوجھ اپنے سر سے جھٹک کر اتار دے

اس کی ہی آب و تاب سے روشن ہو ریگ دل

یہ تیغ میرے سینے کے اندر اتار دے

چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں

دیوار سے پرانا کلنڈر اتار دے

یہ بات ظرف کی نہیں ہے ماوراے ظرف

چاہے تو اس کنویں میں سمندر اتار دے

لوگوں کے ساتھ میری لڑائی ہے آج کل

بہتر ہے مجھ کو شہر سے باہر اتار دے

تو خود تو سات پردوں میں مستور ہے ظفرؔ

ملبوس تیرے آگے وہ کیونکر اتار دے

Pakistanify News Subscription

X