جسم کے ریگزار میں شام و سحر صدا کروں
منزل جاں تو دور ہے طے یہی فاصلا کروں
یہ جو رواں ہیں چار سو اتنے دھوئیں کے آدمی
کس لیے چوب سبز کو آگ سے آشنا کروں
قید کرے تو آپ ہے قید سہے تو آپ ہے
میں کسے روکتا پھروں اور کسے رہا کروں
رات رکی ہے آن کر زرد سفید گھاس پر
لاکھ سخن ہے درمیاں کس سے کسے جدا کروں
شاخ ہلی تو ڈر گیا دھوپ کھلی تو مر گیا
کاش کبھی تو جیتے جی صبح کا سامنا کروں