میں زرد آگ نہ پانی کے سرد ڈر میں رہا
رہا تو سوئی ہوئی خاک کے خطر میں رہا
وہ گردباد کہ دل کی زباں کا ذائقہ ہے
نظر افق پہ ہویدا ہوا نہ سر میں رہا
کہ شامل اس میں مری لرزش خیال بھی تھی
جو اصل چھوڑ کے میں عکس کے اثر میں رہا
ترے لباس پہ ہو اس کی واپسی کی چمک
جو ایک عمر ترے خون کے اثر میں رہا
گھرا تھا چاروں طرف دھوڑ کی قنات سا میں
مگن زمانہ کسی نقش تر بتر میں رہا
اس ایک لمحے کی گم گشتگی پہ خوش ہیں سبھی
جو حشر بن کے مرے سنگ بے شرر میں رہا
یہ شہر زندہ ہے لیکن ہر ایک لفظ کی لاش
جہاں کہیں سے اٹھی شور میرے گھر میں رہا
چپاتیاں تھیں بندھی پیٹ پر مگر شب بھر
ابھرتا ڈوبتا میں بھوک کے بھنور میں رہا
کہاں سے کیسے کسے کون لے اڑا تھا ظفرؔ
جو آدھی رات کو رولا سا دشت و در میں رہا