یوں بھی نہیں کہ دل میں کوئی غم نہیں رہا
ظفر اقبال

یوں بھی نہیں کہ دل میں کوئی غم نہیں رہا

یہ سلسلہ کچھ اتنا منظم نہیں رہا

دل سے تو خیر دھو گئی بارش تمام نقش

دیوار شہر کا بھی وہ عالم نہیں رہا

ضد پر وہ اپنی آج بھی قائم تو ہے مگر

اگلا سا وہ بیان میں دم خم نہیں رہا

مایوس ہو چکا ہے کہ ہے مطمئن یے دل

وہ زخم بھر گئے ہیں کہ مرہم نہیں رہا

کشتئ دل تو ایک تھپیڑے کی مار تھی

طوفان ناز کس لئے اب تھم نہیں رہا

چھوڑی ہے جب سے ہم نے ظفرؔ عاجزی کی خو

اتنا مزاج اس کا بھی برہم نہیں رہا

Pakistanify News Subscription

X