کس کو خبر تھی وہ بھی مرا یار ہوئے گا
ظفر اقبال

کس کو خبر تھی وہ بھی مرا یار ہوئے گا

اور ترت ساتھ سونے کو تیار ہوئے گا

کچھ ہونے اور کچھ بھی نہ ہونے کے درمیاں

اقرار ہوئے گا کبھی انکار ہوئے گا

کھولا جو اس نے راز ہمارا تو بیش و کم

پوشیدہ اس میں بھی کوئی اسرار ہوئے گا

گمنام جو بھی رہتا ہے عزت اسی کی ہے

مشہور ہوئے گا تو بہت خوار ہوئے گا

جو کچھ سمجھ میں آئے گا رک جائے گا وہیں

جو فہم سے ورا ہے وہ اظہار ہوئے گا

باہر سے جتنی ہوئے گی تعمیر سر بلند

اندر اسی حساب سے مسمار ہوئے گا

رہنے کا حق اسی کو عطا ہوگا شہر میں

اب شہر یار کا جو طرف دار ہوئے گا

جو چھپ چھپا کے ہوتا رہا سب سے آج تک

اب ہوئے گا تو برسر بازار ہوئے گا

اچھا نہیں ہے بوسۂ چشم اس کا اے ظفرؔ

تو رفتہ رفتہ آپ ہی بیمار ہوئے گا

Pakistanify News Subscription

X