یہ موت و عدم کون و مکاں اور ہی کچھ ہے
فراق گورکھپوری

یہ موت و عدم کون و مکاں اور ہی کچھ ہے

سن لے کہ مرا نام و نشاں اور ہی کچھ ہے

اتنا تو یقیں ہے کہ وہی ہیں تری آنکھیں

اس پر بھی مگر وہم و گماں اور ہی کچھ ہے

شعلوں میں وہ انداز کہاں سوز نہاں کے

اٹھتا ہے جو دل سے وہ دھواں اور ہی کچھ ہے

اک کیفیت راز ہے غم ہے نہ مسرت

اس بزم محبت میں سماں اور ہی کچھ ہے

جو مرحلۂ قربت و دوری سے گزر جائے

سنتے ہیں کہ وہ جذب نہاں اور ہی کچھ ہے

یا درد کے نغموں میں وہی ہے تری آواز

یا پردۂ ساز رگ جاں اور ہی کچھ ہے

یہ نیند کا جھونکا تو نہیں بے خودیٔ عشق

ہشیار کہ وہ خواب گراں اور ہی کچھ ہے

اب موت بھی ہے گرد رہ کوچۂ جاناں

ان منزلوں میں عمر رواں اور ہی کچھ ہے

اچھے ہیں جہاں ہیں مگر اے دامن جاناں

پاتے ہیں جو تجھ میں وہ اماں اور ہی کچھ ہے

بجلی کے چمکنے میں کہاں عشق کی گرمی

وہ شعلۂ لرزاں و تپاں اور ہی کچھ ہے

جو زخم کھلا دے جو مرا رنگ اڑا دے

وہ فصل گل و فصل خزاں اور ہی کچھ ہے

اک خواب‌ پریشاں سے ہیں اس دور کے آثار

ہشیار کہ اب رنگ جہاں اور ہی کچھ ہے

اک چیز ہے نیرنگیٔ روداد محبت

لیکن بحدیث دگراں اور ہی کچھ ہے

شاعر ہیں فراقؔ اور بھی اس دور میں لیکن

یہ رنگ بیاں رنگ زباں اور ہی کچھ ہے

Pakistanify News Subscription

X