کچھ اپنا آشنا کیوں اے دل ناداں نہیں ہوتا
کہ آئے یہ رنگ گردش دوراں نہیں ہوتا
خوشی کے واسطے پیدا ہوا ہے کون دنیا میں
مگر ہم بھی اہل درد کے شایاں نہیں ہوتا
کبھی پابندیوں سے چھٹ کے بھی دم گھلنے لگتا ہے
در و دیوار ہوں جس میں وہی زنداں نہیں ہوتا
وہی ہے مصر میں ہر کوچہ و بازار کی رونق
مگر ہر بکنے والا یوسف کنعاں نہیں ہوتا
کبھی تنگ آ کے اس کے حسن سے انکار بھی کر لے
کوئی بے کفر کے شائستۂ ایماں نہیں ہوتا
یقیں لائیں تو کیا لائیں جو شک لائیں تو کیا لائیں
کہ باتوں میں تری سچ جھوٹ کا امکاں نہیں ہوتا
ہمارا تجربہ یہ ہے کہ خوش ہونا محبت میں
کبھی مشکل نہیں ہوتا کبھی آساں نہیں ہوتا
یہ وہ پردہ ہے جو دوشیزگی کو اور چمکا دے
سیہ کاری سے حسن آلودۂ عصیاں نہیں ہوتا
نگاہ اہل دل سے انقلاب آئے ہیں دنیا میں
یقیں رکھ عشق اتنا بے سر و ساماں نہیں ہوتا
فراقؔ اک اک سے بڑھ کر چارہ ساز درد ہیں لیکن
یہ دنیا ہے یہاں ہر درد کا درماں نہیں ہوتا