کچھ بھی عیاں نہاں نہ تھا کوئی زماں مکاں نہ تھا
فراق گورکھپوری

کچھ بھی عیاں نہاں نہ تھا کوئی زماں مکاں نہ تھا

دیر تھی اک نگاہ کی پھر یہ جہاں جہاں نہ تھا

ساز وہ قطرے قطرے میں سوز وہ ذرے ذرے میں

یاد تری کسے نہ تھی درد ترا کہاں نہ تھا

عشق کی آزمائشیں اور فضاؤں میں ہوئیں

پاؤں تلے زمیں نہ تھی سر پہ یہ آسماں نہ تھا

عشق حریم حسن میں اپنے سہارے رہ گیا

صبر کا بھی پتہ نہ تھا ہوش کا بھی نشاں نہ تھا

ایک کو ایک کی خبر منزل عشق میں نہ تھی

کوئی بھی اہل کارواں شامل کارواں نہ تھا

عشق نے اپنی جان کو روگ کئی لگا لیے

ہجر و وصال امید و بیم کون بلائے جاں نہ تھا

خلوتیان راز سے حال وصال یار پوچھ

حسن بھی بے نقاب تھا عشق بھی درمیاں نہ تھا

دور حیات محض تھا اس کے حریم راز میں

کیف و اثر کا ذکر کیا زیست کا بھی نشاں نہ تھا

شکوۂ در گذر نما کیوں ہے کہ حسن عشق سے

اتنا تو بد گماں نہ تھا اتنا تو سر گراں نہ تھا

Pakistanify News Subscription

X