پھر تو اس بے نام سفر میں کچھ بھی نہ اپنے پاس رہا
تیری سمت چلا ہوں جب تک سمتوں کا احساس رہا
تیری گلی میں ٹوٹ گئے سب جرم و سزا کے پیمانے
ایک تبسم دیکھنے والا ساری عمر اداس رہا
گلچیں کے چہرے کی رنگت روز بدلتی رہتی تھی
رنج و خوشی کے ہر موسم میں پھول کا ایک لباس رہا
جن کی درد بھری باتوں سے ایک زمانہ رام ہوا
قاصرؔ ایسے فن کاروں کی قسمت میں بن باس رہا