برقع اٹھا تھا رخ سے مرے بد گمان کا
میر تقی میر

برقع اٹھا تھا رخ سے مرے بد گمان کا

دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا

مت مانیو کہ ہوگا یہ بے درد اہل دیں

گر آوے شیخ پہن کے جامہ قرآن کا

خوبی کو اس کے چہرے کی کیا پہنچے آفتاب

ہے اس میں اس میں فرق زمین آسمان کا

ابلہ ہے وہ جو ہووے خریدار گل رخاں

اس سودے میں صریح ہے نقصان جان کا

کچھ اور گاتے ہیں جو رقیب اس کے روبرو

دشمن ہیں میری جان کے یہ جی ہے تان کا

تسکین اس کی تب ہوئی جب چپ مجھے لگی

مت پوچھ کچھ سلوک مرے بد زبان کا

یاں بلبل اور گل پہ تو عبرت سے آنکھ کھول

گل گشت سرسری نہیں اس گلستان کا

گل یادگار چہرۂ خوباں ہے بے خبر

مرغ چمن نشاں ہے کسو خوش زبان کا

تو برسوں میں کہے ہے ملوں گا میں میرؔ سے

یاں کچھ کا کچھ ہے حال ابھی اس جوان کا

Pakistanify News Subscription

X