ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے
میر تقی میر

ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے

چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے

مند گئی آنکھ ہے اندھیرا پاک

روشنی ہے سو یاں مرے دم سے

تم جو دل خواہ خلق ہو ہم کو

دشمنی ہے تمام عالم سے

درہمی آ گئی مزاجوں میں

آخر ان گیسوان درہم سے

سب نے جانا کہیں یہ عاشق ہے

بہہ گئے اشک دیدۂ نم سے

مفت یوں ہاتھ سے نہ کھو ہم کو

کہیں پیدا بھی ہوتے ہیں ہم سے

اکثر آلات جور اس سے ہوئے

آفتیں آئیں اس کے مقدم سے

دیکھ وے پلکیں برچھیاں چلیاں

تیغ نکلی اس ابروئے خم سے

کوئی بیگانہ گر نہیں موجود

منہ چھپانا یہ کیا ہے پھر ہم سے

وجہ پردے کی پوچھیے بارے

ملیے اس کے کسو جو محرم سے

درپئے خون میرؔ ہی نہ رہو

ہو بھی جاتا ہے جرم آدم سے

Pakistanify News Subscription

X