رات سے آنسو مری آنکھوں میں پھر آنے لگا
میر تقی میر

رات سے آنسو مری آنکھوں میں پھر آنے لگا

یک رمق جی تھا بدن میں سو بھی گھبرانے لگا

وہ لڑکپن سے نکل کر تیغ چمکانے لگا

خون کرنے کا خیال اب کچھ اسے آنے لگا

لعل جاں بخش اس کے تھے پوشیدہ جوں آب حیات

اب تو کوئی کوئی ان ہونٹھوں پہ مر جانے لگا

حیف میں اس کے سخن پر ٹک نہ رکھا گوش کو

یوں تو ناصح نے کہا تھا دل نہ دیوانے لگا

حبس دم کے معتقد تم ہو گے شیخ شہر کے

یہ تو البتہ کہ سن کر لعن دم کھانے لگا

گرم ملنا اس گل نازک طبیعت سے نہ ہو

چاندنی میں رات بیٹھا تھا سو مرجھانے لگا

عاشقوں کی پائمالی میں اسے اصرار ہے

یعنی وہ محشر خرام اب پاؤں پھیلانے لگا

چشمک اس مہ کی سی دل کش دید میں آئی نہیں

گو ستارہ صبح کا بھی آنکھ جھپکانے لگا

کیونکر اس آئینہ رو سے میرؔ ملیے بے حجاب

وہ تو اپنے عکس سے بھی دیکھو شرمانے لگا

Pakistanify News Subscription

X