جانا کہ شغل رکھتے ہو تیر و کماں سے تم
میر تقی میر

جانا کہ شغل رکھتے ہو تیر و کماں سے تم

پر مل چلا کرو بھی کسو خستہ جاں سے تم

ہم اپنی چاک جیب کو سی رہتے یا نہیں

پھاٹے میں پاؤں دینے کو آئے کہاں سے تم

اب دیکھتے ہیں خوب تو وہ بات ہی نہیں

کیا کیا وگرنہ کہتے تھے اپنی زباں سے تم

تنکے بھی تم ٹھہرتے کہیں دیکھے ہیں تنک

چشم وفا رکھو نہ خسان جہاں سے تم

جاؤ نہ دل سے منظر تن میں ہے جا یہی

پچھتاؤ گے اٹھوگے اگر اس مکاں سے تم

قصہ مرا سنو گے تو جاتی رہے گی نیند

آرام چشم مت رکھو اس داستاں سے تم

کھل جائیں گی پھر آنکھیں جو مر جائے گا کوئی

آتے نہیں ہو باز مرے امتحاں سے تم

جتنے تھے کل تم آج نہیں پاتے اتنا ہم

ہر دم چلے ہی جاتے ہو آب رواں سے تم

رہتے نہیں ہو بن گئے میرؔ اس گلی میں رات

کچھ راہ بھی نکالو سگ و پاسباں سے تم

Pakistanify News Subscription

X