زباں رکھ غنچہ ساں اپنے دہن میں
بندھی مٹھی چلا جا اس چمن میں
نہ کھول اے یار میرا گور میں منہ
کہ حسرت ہے مری جاگا کفن میں
رکھا کر ہاتھ دل پر آہ کرتے
نہیں رہتا چراغ ایسی پون میں
جلے دل کی مصیبت اپنے سن کر
لگی ہے آگ سارے تن بدن میں
نہ تجھ بن ہوش میں ہم آئے ساقی
مسافر ہی رہے اکثر وطن میں
خرد مندی ہوئی زنجیر ورنہ
گزرتی خوب تھی دیوانہ پن میں
کہاں کے شمع و پروانے گئے مر
بہت آتش بجاں تھے اس چمن میں
کہاں عاجز سخن قادر سخن ہوں
ہمیں ہے شبہ یاروں کے سخن میں
گداز عشق میں بہ بھی گیا میرؔ
یہی دھوکا سا ہے اب پیرہن میں
© 2024 Pakistanify Media - Navigating The World of Information