اب ضعف سے ڈھہتا ہے بیتابی شتابی کی
میر تقی میر

اب ضعف سے ڈھہتا ہے بیتابی شتابی کی

اس دل کے تڑپنے نے کیا خانہ خرابی کی

ان درس گہوں میں وہ آیا نہ نظر ہم کو

کیا نقل کروں خوبی اس چہرہ کتابی کی

بھنتے ہیں دل اک جانب سکتے ہیں جگر یکسو

ہے مجلس مشتاقاں دکان کبابی کی

تلخ اس لب میگوں سے سب سنتے ہیں کس خاطر

تہہ دار نہیں ہوتی گفتار شرابی کی

یک بو کشی بلبل ہے موجب صد مستی

پر زور ہے کیا دارو غنچے کی گلابی کی

اب سوز محبت سے سارے جو پھپھولے ہیں

ہے شکل مرے دل کی سب شیشہ حبابی کی

نش مردہ مرے منہ سے یاں حرف نہیں نکلا

جو بات کہ میں نے کی سو میرؔ حسابی کی

Pakistanify News Subscription

X