کب سے نظر لگی تھی دروازۂ حرم سے
میر تقی میر

کب سے نظر لگی تھی دروازۂ حرم سے

پردہ اٹھا تو لڑیاں آنکھیں ہماری ہم سے

صورت گر اجل کا کیا ہاتھ تھا کہے تو

کھینچی وہ تیغ ابرو فولاد کے قلم سے

سوزش گئی نہ دل کی رونے سے روز و شب کے

جلتا ہوں اور دریا بہتے ہیں چشم نم سے

طاعت کا وقت گزرا مستی میں آب رز کی

اب چشم داشت اس کے یاں ہے فقط کرم سے

کڑھیے نہ روئیے تو اوقات کیونکے گزرے

رہتا ہے مشغلہ سا بارے غم و الم سے

مشہور ہے سماجت میری کہ تیغ برسی

پر میں نہ سر اٹھایا ہرگز ترے قدم سے

بات احتیاط سے کر ضائع نہ کر نفس کو

بالیدگی دل ہے مانند شیشہ دم سے

کیا کیا تعب اٹھائے کیا کیا عذاب دیکھے

تب دل ہوا ہے اتنا خوگر ترے ستم سے

ہستی میں ہم نے آ کر آسودگی نہ دیکھی

کھلتیں نہ کاش آنکھیں خواب خوش عدم سے

پامال کر کے ہم کو پچھتاؤ گے بہت تم

کم یاب ہیں جہاں میں سر دینے والے ہم سے

دل دو ہو میرؔ صاحب اس بد معاش کو تم

خاطر تو جمع کر لو ٹک قول سے قسم سے

Pakistanify News Subscription

X