مدت سے یہ عالم ہے دل کا ہنستا بھی نہیں روتا بھی نہیں
ماضی بھی کبھی دل میں نہ چبھا آئندہ کا سوچا بھی نہیں
وہ میرے ہونٹ پہ لکھا ہے جو حرف مکمل ہو نہ سکا
وہ میری آنکھ میں بستا ہے جو خواب کبھی دیکھا بھی نہیں
چلتے چلتے کچھ تھم جانا پھر بوجھل قدموں سے چلنا
یہ کیسی کسک سی باقی ہے جب پاؤں میں وہ کانٹا بھی نہیں
دھندلائی ہوئی شاموں میں کوئی پرچھائیں سی پھرتی رہتی ہے
میں آہٹ سنتی ہوں جس کی وہ وہم نہیں سایہ بھی نہیں
تزئین لب و گیسو کیسی پندار کا شیشہ ٹوٹ گیا
تھی جس کے لئے سب آرائش اس نے تو ہمیں دیکھا بھی نہیں