شہر پربت بحر و بر کو چھوڑتا جاتا ہوں میں
اک تماشا ہو رہا ہے دیکھتا جاتا ہوں میں
ہوش اڑتا جا رہا ہے گرمئ رفتار میں
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
ابر ہے افلاک پر اور اک سراسیمہ قمر
ایک دشت رائیگاں میں دوڑتا جاتا ہوں میں
ہوں مکاں میں بند جیسے امتحاں میں آدمی
سختیٔ دیوار و در ہے جھیلتا جاتا ہوں میں
نم ہے میرے شعر سے اس چشم سنگ آلود میں
خواب ہوں اس چشم تر میں پھیلتا جاتا ہوں میں
شوق ہیں کچھ جن کے پیچھے چل رہا ہوں میں منیرؔ
رنج ہیں کچھ دل میں میرے کھینچتا جاتا ہوں میں