گرد نے خیمہ تان لیا تھا
ناصر کاظمی

گرد نے خیمہ تان لیا تھا

دھوپ کا شیشہ دھندلا سا تھا

نکہت و نور کو رخصت کرنے

بادل دور تلک آیا تھا

گئے دنوں کی خوشبو پا کر

میں دوبارہ جی اٹھا تھا

سوتی جاگتی گڑیا بن کر

تیرا عکس مجھے تکتا تھا

وقت کا ٹھاٹھیں مارتا ساگر

ایک ہی پل میں سمٹ گیا تھا

جنگل دریا کھیت کے ٹکڑے

یاد نہیں اب آگے کیا تھا

نیل گگن سے ایک پرندہ

پیلی دھرتی پر اترا تھا

Pakistanify News Subscription

X