محبت کو گلے کا ہار بھی کرتے نہیں بنتا
محبوب خزاں

محبت کو گلے کا ہار بھی کرتے نہیں بنتا

کچھ ایسی بات ہے انکار بھی کرتے نہیں بنتا

خلوص ناز کی توہین بھی دیکھی نہیں جاتی

شعور حسن کو بیدار بھی کرتے نہیں بنتا

تجھے اب کیا کہیں اے مہرباں اپنا ہی رونا ہے

کہ ساری زندگی ایثار بھی کرتے نہیں بنتا

ستم دیکھو کہ اس بے درد سے اپنی لڑائی ہے

جسے شرمندۂ پیکار بھی کرتے نہیں بنتا

ادا رنجیدگی پروانگی آنسو بھری آنکھیں

اب اتنی سادگی کیا پیار بھی کرتے نہیں بنتا

جوانی مہربانی حسن بھی اچھی مصیبت ہے

اسے اچھا اسے بیمار بھی کرتے نہیں بنتا

بھنور سے جی بھی گھبراتا ہے لیکن کیا کیا جائے

طواف موج کم رفتار بھی کرتے نہیں بنتا

اسی دل کو بھری دنیا کے جھگڑے جھیلنے ٹھہرے

یہی دل جس کو دنیا دار بھی کرتے نہیں بنتا

جلاتی ہے دلوں کو سرد مہری بھی زمانے کی

سوال گرمیٔ بازار بھی کرتے نہیں بنتا

خزاںؔ ان کی توجہ ایسی نا ممکن نہیں لیکن

ذرا سی بات پر اصرار بھی کرتے نہیں بنتا

Pakistanify News Subscription

X