ہنوز زندگیٔ تلخ کا مزہ نہ ملا
کمال صبر ملا صبر آزما نہ ملا
مری بہار و خزاں جس کے اختیار میں ہے
مزاج اس دل بے اختیار کا نہ ملا
ہوا کے دوش پہ جاتا ہے کاروان نفس
عدم کی راہ میں کوئی پیادہ پا نہ ملا
بس ایک نقطۂ فرضی کا نام ہے کعبہ
کسی کو مرکز تحقیق کا پتہ نہ ملا
امید و بیم نے مارا مجھے دو راہے پر
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا
بجز ارادہ پرستی خدا کو کیا جانے
وہ بد نصیب جسے بخت نارسانہ ملا
نگاہ یاسؔ سے ثابت ہے سعئ لا حاصل
خدا کا ذکر تو کیا بندۂ خدا نہ ملا