ہنوز درد جدائیٔ یار باقی ہے
کھٹک رہا تھا جو دل میں وہ خار باقی ہے
نہ قیس ہے نہ وہ محمل سوار باقی ہے
بس اک غبار فقط یادگار باقی ہے
شراب عیش کسی شب ہوئی تھی مجھ کو نصیب
اسی شراب کا اب تک خمار باقی ہے
کبھی تو شام مصیبت کی صبح آئے گی
اگر یہ گردش لیل و نہار باقی ہے
نگاہ لطف سے ساقی ہمیں رہیں محروم
ادھر بھی دیکھ اک امیدوار باقی ہے
بہار آئے گی پھر یاسؔ ناامید نہ ہو
ابھی تو گلشن ناپائیدار باقی ہے