Chapter 153, Jild 153 of Muslim in Urdu & English translation. In this chapter, Imam Bukhari has discussed the Revelation related Hadees. There are total 85 Hadith in this chapter, all hadees are given by the hadees numbers and proper reference to keep it authentic. You can search the hadees of this Jild or other chapters easily in Arabic, Urdu or English text.
حدیث نمبر 1
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن بڑا موٹا آدمی آئے گا جو اللہ کے نزدیک مچھر کے بازو کے برابر نہ ہو گا۔“ یہ آیت پڑھو: «فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا» (الکہف: ١٠٥) ”ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن نہ رکھیں گے۔“ (یعنی دنیا کا مٹاپا اور مال اور دولت قیامت میں کام آنے والا نہیں وہاں تو عمل درکار ہے۔ اس حدیث سے بھی مٹاپے کی مذمت ثابت ہوئی)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک یہودی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے محمد یا اے ابولقاسم! اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو ایک انگلی پر اٹھا لے گا اور زمینوں کو ایک انگلی پر اور پہاڑوں اور درختوں کو ایک انگلی پر اور پانی اور نمناک زمین کو ایک انگلی پر اور تمام خلق کو ایک انگلی پر پھر ان کو ہلائے گا اور کہے گا: میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں، یہ سن کر رسول اللہ ہنسے تعجب سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق کی اس عالم کے کلام کی پھر یہ آیت پڑھی: «وَمَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ» ﴿۳۹-الزمر: ٦٧﴾ یعنی ”نہیں قدر کی انہوں نے اللہ کی جیسے قدر اس کی ہونی چاہیے اور ساری زمین اس کی ایک مٹھی میں ہے قیامت کے دن اور آسمان لپٹے ہوئے ہیں اس کے داہنے ہاتھ میں، پاک ہے وہ اور بلند مشرکوں کے شرک سے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہو گئیں۔ تعجب سے اس کی تصدیق کر کے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «وَمَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ» “ آخر تک۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 4
سیدنا علقمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اہل کتاب میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے ابو القاسم! اللہ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور زمینوں کو ایک انگلی پر پھر فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت کھل گئے، پھر فرمایا: «وَمَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ» (۳۹-الزمر: ٦٧)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 5
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے کہ پہاڑوں کو ایک انگلی پر اور جریر کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اس کی تصدیق کر کے تعجب سے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 6
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمین کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمانوں کو داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا پھر فرمائے گا: ”میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 7
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ لے گا اور ان کو داہنے ہاتھ میں لے لے گا، پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں زور والے؟ کہاں ہیں غرور کرنے والے؟ پھر بائیں ہاتھ سے زمین کو لپیٹ لے گا (جو داہنے کے مثل ہے اور اسی واسطے دوسری حدیث میں ہے کہ پروردگار کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں) پھر فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں زور والے؟ کہاں ہیں بڑائی کرنے والے؟ .“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 8
عبیداللہ بن مقسم نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا وہ کیونکر نقل کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اپنے آسمانوں اور زمینوں کو دونوں ہاتھوں میں لے لے گا اور فرمائے گا میں اللہ ہوں۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلیوں کو بند کرتے تھے اور کھولتے تھے میں۔ بادشاہ ہوں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہاں تک کہ میں نے منبر کو دیکھا وہ نیچے کی طرف سے ہل رہا ہے میں سمجھا کہ شاید وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گر پڑے گا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 9
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جبار جل جلالہ اپنے آسمانوں اور زمینوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لے گا۔“ پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے یعقوب نے بیان کیا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 10
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا پھر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتہ کے دن پیدا کیا (یعنی زمین کو) اور اتوار کے دن اس میں پہاڑوں کو پیدا کیا اور پیر کے دن درختوں کو پیدا کیا اور کام کاج کی چیزیں (جیسے لوہا وغیرہ) منگل کو پیدا کیں اور نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور جمعرات کے دن جانور پھیلائے زمین میں اور آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن عصر کے بعد بنایا سب سے آخر مخلوقات میں، سب سے آخر ساعت میں جمعہ کی عصر سے لے کر رات تک آدم علیہ السلام پیدا ہوئے۔“ حجاج سے اسی حدیث کی طرح مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 11
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن لوگ اکٹھے کئے جائیں گے سفید زمین پر جو سرخی مارتی ہو گی جیسے میدہ کی روٹی، اس میں کسی کا نشان باقی نہ رہے گا۔“ (یعنی کوئی عمارت جیسے مکان یا مینار وغیرہ نہ رہے گا صاف چٹیل میدان ہو جائے گا)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 12
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یہ جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ» (۱۴-ابراهيم: ۴۸) ”جس دن بدل جائے گی زمین اس زمین کے سوا اور آسمان بھی بدل دیے جائیں گے“ اس وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پل صراط پر ہوں گے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 13
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن زمین ایک روٹی کی طرح ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ اس کو الٹی پلٹی کر دے گا اپنے ہاتھ سے جیسے کوئی تم میں سے سفر میں سے اپنی روٹی کو الٹتا ہے بہشتیوں کی مہمانی کے لیے۔“ پھر ایک شخص یہودی آیا اور بولا: برکت دے رحمٰن تم پر ابوالقاسم! کیا میں تم کو بتلاؤں بہشتیوں کا کھانا قیامت کے دن؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں بتلا۔“ وہ بولا: زمین تو ایک روٹی کی طرح ہو جائے گی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف دیکھا، پھر ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت کھل گئے۔ وہ بولا: میں تم سے کہوں ان کا سالن کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ وہ بولا: ان کا سالن بالام اور نون ہو گا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: بالام اور نون کیا ہے؟ وہ بولا: بیل اور مچھلی جن کے کلیجے کے ٹکڑے میں سے ستر ہزار آدمی کھائیں گے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 14
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر دس یہودی میری پیروی کریں تو ساری زمین میں کوئی یہودی باقی نہ رہے جو مسلمان نہ ہو۔“ (یعنی دس عالم یہودی متابعت کریں تو باقی یہودی بھی مسلمان ہو جائیں گے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 15
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا، ایک کھیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لکڑی پر ٹیکا دئیے ہوئے تھے، اتنے میں چند یہودی ملے، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ان سے پوچھو روح کے متعلق۔ دوسرے نے کہا: تمہیں کیا شبہ ہے جو پوچھتے ہو ایسا نہ ہو وہ کوئی بات ایسی کہیں جو تم کو بری معلوم ہو۔ پھر انہوں نے کہا: پوچھو۔ آخر کچھ لوگ ان میں سے اٹھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور پوچھا: روح کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ میں سمجھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آ رہی ہے۔ میں اسی جگہ کھڑا ہو رہا جب وحی اتر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا» (۱۷-الإسراء: ٨٥) یعنی ”پوچھتے ہیں تجھ سے روح کو تو کہہ روح پروردگار کا ایک حکم ہے اور تم نہیں دئیے گئے علم مگر تھوڑا۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 16
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں مدینہ کی ایک کھیتی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا۔ باقی حدیث حفص کی حدیث کی طرح ہے۔ البتہ وکیع کی حدیث میں «إِلاَّ قَلِيلاً» ہے اور عیسیٰ بن یونس رحمہ اللہ کی حدیث میں «وَمَا أُوتُوا» ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 17
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 18
سیدنا خباب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میرا قرض آتا تھا عاص بن وائل پر۔ میں گیا اس پر تقاضا کرنے کو۔ وہ بولا: میں کبھی نہ دوں گا جب تک تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر نہ جائے گا۔ میں نے کہا: میں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت تک بھی نہ پھروں گا کہ تو مر جائے، پھر اٹھے۔ وہ بولا: میں مرنے کے بعد پھر اٹھوں گا تو تیرا قرض ادا کر دوں گا جب مجھے اپنا مال ملے گا اولاد ملے گی۔ تب یہ آیت اتری «أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا» (۱۹-مریم: ٧٧) آخر تک۔ یعنی ”تو نے دیکھا اس شخص کو جس نے انکار کیا ہماری آیتوں کا اور کہنے لگا: مجھ کو مال اور بچے ملیں گے۔ کیا وہ غیب کی بات جانتا ہے یا اس نے اللہ سے کوئی اقرار لیا ہے۔“ آخر تک۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 19
اعمش نے اسی سند کے ساتھ وکیع کی روایت کی طرح بیان کیا۔ اس میں یہ ہے کہ سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جاہلیت کے زمانہ میں لوہار تھا۔ میں نے عاص بن وائل کا کچھ کام کیا پھر اس سے تقاضا کرنے گیا مزدوری کے لیے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 20
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ابوجہل نے کہا: یااللہ! اگر یہ قرآن سچ ہے تیری طرف سے تو ہم پر پتھر برسا آسمان سے یا دکھ کا عذاب بھیج۔ اس وقت یہ آیت اتری: «وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّـهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ * وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّـهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ» (۸-الأنفال: ٣٣-۳۴) ”اللہ ان کو عذاب کرنے والا نہیں، جب تک تو ان میں موجود ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں کرنے کا جب تک وہ استغفار کرتے ہیں، اور کیا ہوا جو اللہ عذاب نہ کرے ان کو وہ روکتے ہیں مسجد حرم میں آنے سے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 21
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ابوجہل نے کہا: کیا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنا منہ زمین پر رکھتے ہیں تمہارے سامنے؟ لوگوں نے کہا: ہاں۔ ابوجہل نے کہا: قسم لات اور عزیٰ کی اگر میں ان کو اس حال میں دیکھوں گا (یعنی سجدہ میں) میں ان کی گردن روندوں گا یا منہ میں مٹی لگاؤں گا۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، اس ارادہ سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن روندے (کھندے)۔ لوگوں نے دیکھا کہ اچانک ابوجہل الٹے پاؤں پھر رہا ہے اور ہاتھ سے کسی چیز سے بچتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا: تجھے کیا ہوا؟ وہ بولا: میں نے دیکھا کہ میرے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بیچ میں آگ کی ایک خندق ہے اور ہول ہے اور بازو ہیں(فرشتوں کے بازو تھے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ میرے نزدیک آتا تو فرشتے اس کی بوٹی بوٹی عضو عضو اچک لیتے۔“ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ، أَن رَّآهُ اسْتَغْنَىٰ، إِنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الرُّجْعَىٰ، أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَىٰ، عَبْدًا إِذَا صَلَّىٰ، أَرَأَيْتَ إِن كَانَ عَلَى الْهُدَىٰ، أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَىٰ، أَرَأَيْتَ إِن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ، أَلَمْ يَعْلَم بِأَنَّ اللَّـهَ يَرَىٰ، كَلَّا لَئِن لَّمْ يَنتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ، نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ، فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ، سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ، كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب» (۹۶-العلق: ۶-۱۹) ”ہر گز نہیں، آدمی شرارت کرتا ہے اس وجہ سے کہ اپنے تیئں امیر سمجھتا ہے، آخر تیرے رب کی طرف تجھ کو جانا ہے، کیا تو نے دیکھا اس شخص کو جو ایک بندے کو نماز سے منع کرتا ہے؟ (معاذ اللہ! جو کسی مسلمان کو منع کرے یا مسجد سے روکے وہ ابوجہل ہے) بھلا تو کیا سمجھتا ہے اگر یہ راہ پر ہوتا اور اچھی بات کا حکم کرتا؟ تو کیا سمجھتا ہے اگر اس نے جھٹلایا اور پیٹھ پھیری؟ یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ ہرگز نہیں، اگر یہ باز نہ آۓ گا (ان برے کاموں سے) ہم اس کو گھسیٹیں گے ماتھے کے بل اور اس کا ماتھا جھوٹا ہے گہنگار وہاں وہ پکارے اپنی قوم کو قریب ہم بلائیں گے فرشتوں کو ہرگز تو اس کا کہنا نہ مان۔“ «نَادِيَهُ» سے آیت میں قوم مراد ہے (یا ساتھی اور رفیق جو صحبت میں رہتے ہیں)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 22
مسروق سے روایت ہے، ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے اور وہ لیٹے ہوئے تھے ہم لوگوں میں کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور بولا: اے ابوعبدالرحمٰن! ایک بیان کرنے والا کندہ کے دروازوں پر بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قرآن میں جو دھوئیں کی آیت ہے یہ دھواں آنے والا ہے اور کافروں کا سانس روک دے گا۔ مسلمانوں کو اس سے زکام کی کیفیت پیدا ہو گی۔ یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے غصہ میں اور کہا: اے لوگو! اللہ سے ڈرو، تم میں سے جو کوئی بات جانتا ہے اس کو کہے اور جو نہیں جانتا تو یوں کہے: اللہ پاک خوب جانتا ہے کیونکہ علم کی یہی بات ہے کہ جو بات تم میں سے کوئی نہ جانتا ہو اس کے لیے اللہ اعلم کہے۔ اللہ جل جلالہ نے اپنے نبی سے فرمایا: «قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ» (۳۸-ص: ٨٦) ”کہہ تو اے محمد! میں کچھ مزدوری نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرتا ہوں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کی کیفیت دیکھی کہ وہ سمجھانے سے نہیں مانتے تو فرمایا: ”یا اللہ! ان پر سات برس کا قحط بھیج جیسے یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں سات سال تک قحط ہوا تھا۔“ آخر قریش پر قحط پڑا جو ہر چیز کو کھا گیا یہاں تک انہوں نے کھالوں اور مردار کو بھی کھا لیا بھوک کے مارے اور ایک شخص ان میں کا آسمان کو دیکھتا تو دھوئیں کی طرح معلوم ہوتا۔ پھر ابوسفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کہنے لگا: اے محمد! تم حکم کرتے ہو اللہ کی اطاعت کا اور ناتا جوڑنے کا، تمہاری قوم تو تباہ ہو گئی، ان کے لیے دعا کرو اللہ تعالیٰ سے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ، يَغْشَى النَّاسَ هَـٰذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ» (۴۴-الدخان: ۱۰-١١) ”انتطار کر اس دن کا جب آسمان سے کھلم کھلا دھواں اٹھے گا جو لوگوں کو ڈھانک لے گا یہ دکھ کا عذاب ہے یہاں تک کہ ہم عذاب کو موقوف کرنے والے ہیں۔“ اگر اس آیت میں آخرت کا عذاب مراد ہوتا تو وہ کہیں موقوف ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَىٰ إِنَّا مُنتَقِمُونَ» (۴۴-الدخان: ۱۶) ”جس دن ہم بڑی پکڑ پکڑیں گے ہم بدلہ لیں گے۔“ تو اس پکڑ سے مراد بدر کی پکڑ ہے اور یہ نشانیاں یعنی دھواں اور پکڑ اور لزام اور روم کی نشانیا ں تو گزر چکیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 23
مسروق رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی نے آ کر عرض کیا: میں مسجد میں ایک ایسے آدمی کو چھوڑ آیا ہوں جو اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کرتا ہے۔ وہ اس آیت: «يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ» کہ جس دن آسمان پر واضح دھواں ظاہر ہو گا کی تفسیر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ قیامت کے دن دھواں لوگوں کی سانسوں کو بند کر دے گا۔ یہاں تک کہ ان کی زکام کی سی کیفییت ہو جائے گی۔ تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو آدمی کسی بات کا علم رکھتا ہے، وہ وہی بات کہے اور جو نہ جانتا ہو تو چاہیئے کہ وہ کہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ پس بے شک آدمی کی عقلمندی یہ ہے کہ وہ جس بات کا علم نہ رکھتا ہو اس کے بارے میں کہے: «الله اعلم» ۔ ان قریشیوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف قحط پڑنے کی دعا کی جیسے کہ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں قحط اور مصیبت و تنگی آئی تھی۔ یہاں تک کہ جب کوئی آدمی آسمان کی طرف نظر کرتا تو اپنے اور آسمان کے درمیان اپنی مصیبت کی وجہ سے دھواں دیکھتا تھا اور یہاں تک کہ انہوں نے ہڈیوں کو کھایا۔ پس ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مضر قبیلہ کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں۔ پس بےشک وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے مضر کے لیے بڑی جرأت کی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا مانگی تو اللہ ربّ العزت نے یہ آیت اتاری: «إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ» (۴۴-الدخان: ۱۵) ”ہم چند دنوں کے لیے عذاب روکنے والے ہیں لیکن تم پھر وہی کام سرانجام دو گے۔“ کہتے ہیں پس ان پر بارش برسائی گئی۔ پس وہ خوشحال ہوگئے تو پھر وہ اسی بدعقیدگی کی طرف لوٹ گئے جس پر پہلے سے قائم تھے تو اللہ نے یہ آیات اتاری «فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَـٰذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ» آخر تک ”ہم بدلہ لیں گے“ یعنی بدر کے دن۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 24
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: پانچ نشانیاں تو گزر چکیں دخان، لزام، روم، بطشہ اور قمر (یعنی شق قمر)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 25
اعمش سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 26
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”ہم ان کو چھوٹا عذاب دیں گے .“ اس سے مراد دنیا کی مصیبتیں ہیں، روم، بطشہ، دخان اور شعبہ کو شک ہے بطشہ کہا یا دخان۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 27
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، چاند پھٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو ٹکڑے ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گواہ رہو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 28
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے منیٰ میں کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایک ٹکڑا تو پہاڑ کے اس طرف رہا اور ایک اس طرف چلا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گواہ رہو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 29
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ ایک ٹکڑے نے پہاڑ کو ڈھانک لیا اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر رہا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 30
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 31
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 32
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نشانی چاہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دو بار چاند کا پھٹنا دکھایا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 33
سیدنا انس رضی اللہ عنہ شیبان کی حدیث کی طرح روایت کرتے ہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 34
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، چاند دو ٹکڑے ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 35
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی ایسے ہی روایت ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 36
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ جل جلالہ سے زیادہ کوئی ایذاء پر صبر کرنے والا نہیں (باوجود یہ کہ ہر طرح کی قدرت رکھتا ہے) اللہ کے ساتھ لوگ شرک کرتے ہیں اور اس کے لیے بیٹا بتاتے ہیں (حالانکہ اس کا کوئی بیٹا نہیں سب اس کے غلام ہیں) پھر وہ ان کو تندرستی دیتا ہے روزی دیتا ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 37
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا۔ اس میں بیٹے کا ذکر نہیں ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 38
سیدنا عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی تکلیف دہ باتوں کو سن کر ان پر صبر کرنے والا نہیں ہے۔ کافر اللہ کے لیے ہمسر بناتے ہیں اور اس کے لیے اولاد ثابت کرتے ہیں پھر بھی وہ اس کے باوجود انہیں رزق اور عافیت اور دوسری چیزیں عطا کرتا ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 39
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص سے فرمائے گا: جس کو سب سے ہلکا عذاب ہو گا جہنم میں اگر تیرے پاس دنیا ہوتی اور جو کچھ اس میں ہے کیا تو اس کو دے کر اپنے کو عذاب سے چھڑاتا؟ وہ بولے گا: ہاں۔ پروردگار فرمائے گا: میں نے تو تجھ سے اس سے سہل بات چاہی تھی (جس میں کچھ خرچ نہ تھا) اور تو اس وقت آدم کی پیٹھ میں تھا کہ شرک نہ کرنا، میں تجھ کو جہنم میں نہ لے جاؤں گا تو نے نہ مانا اور شرک کیا۔“ (معاذ اللہ شرک ایسا گناہ ہے کہ وہ بخشا نہ جائے گا اور شرک کرنے والا اگر شرک کی حالت میں مرے تو ابدالآباد جہنم میں رہے گا)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 40
ترجمہ وہی ہے جو گزرا۔ اس میں آخری فقرہ مذکور نہیں ہے «وَلاَ أُدْخِلَكَ النَّارَ» ۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 41
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن کافر سے کہا: جائے گا اگر تیرے پاس زمین بھر کے سونا ہوتا کیا تو اس کو دے کر اپنے تئیں چھڑاتا؟ وہ بولے: گا ہاں۔ پھر اس سے کہا: جائے گا تجھ سے تو اس سے آسان کا سوال ہوتا تھا“ (کہ شرک نہ کرنا وہی تجھ سے نہ ہو سکا)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 42
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح بیان کرتے ہیں اور اس میں یہ زیادہ ہے کہ ”اس سے کہا جائے گا: تو جھوٹا ہے تجھ سے تو اس سے آسان چیز کا سوال ہوا تھا۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 43
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! کافر کا حشر قیامت کے دن منہ کے بل کیسے ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا جس نے اس کو دونوں پاؤں پر دنیا میں چلایا وہ اس بات کی قدرت نہیں رکھتا کہ اس کو منہ کے بل چلائے قیامت کے دن۔“ قتادہ نے یہ حدیث سن کر کہا: بے شک اے ہمارے رب! تو ایسی طاقت رکھتا ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 44
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لایا جائے گا قیامت کے دن اہل دوزخ سے وہ شخص جو دنیا داروں میں آسودہ تر اور خوش عیش تھا سو دوزخ میں ایک با غوطہ دیا جائے گا، پھر اس سے پوچھا: جائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! کیا تو نے کبھی آرام دنیا میں دیکھا تھا؟ کیا تجھ پر کبھی چین بھی گزرا تھا؟ تو وہ کہے گا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں اے میرے رب! اور اہل جنت سے لایا جائے گا جو دنیا میں سب لوگوں سے سخت تکلیف میں رہا تو جنت میں ایک بار غوطہ دیا جائے گا پھر اس سے پوچھا: جائے گا اے آدم کے بیٹے! تو نے کبھی تکلیف بھی دیکھی ہے؟ کیا تجھ پر شدت اور رنج بھی گزرا تھا؟ وہ کہے گا: اللہ کی قسم! مجھ تو کبھی تکلیف نہیں گزری اور میں نے تو کبھی شدت اور سختی نہیں دیکھی۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 45
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کسی مومن پر ایک نیکی کے لیے بھی ظلم نہ کرے گا، اس کا بدلہ دنیا میں دے گا اور آخرت میں بھی دے گا اور کافر کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ جب آخرت ہو گی تو اس کے پاس کوئی نیکی نہ رہے گی جس کا وہ بدلہ دیا جائے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 46
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کافر جب کوئی نیکی کرتا ہے تو اس کو دنیا میں فائدہ مل جاتا ہے (عمدہ نوالہ) اور مومن کی نیکیوں کو تو اللہ تعالیٰ رکھ چھوڑتا ہے آخرت کے لیے اور دنیا میں بھی اس کو روزی دیتا ہے اپنی اطاعت کے بعد۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 47
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مذکورہ حدیث کے ہم معنی روایت بیان کرتے ہیں۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 48
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی مثال کھیت کی سی ہے، ہمیشہ وہ ہوا سے جھکتا ہے۔ اسی طرح مومن پر ہمیشہ مصیبت آتی ہے اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے کہ کبھی نہیں جھکتا یہاں تک کہ جڑ سے کاٹا جائے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 49
اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 50
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی مثال ایسی ہے جیسے کھیت کا نرم جھاڑ ہو ہوا اس کو جھونکے دیتی ہے کبھی اس کو گرا دیتی ہے کبھی سیدھا کر دیتی ہے یہاں تک کہ سوکھ جاتا ہے اور مثال کافر کی جیسے صنوبر کا درخت جو سیدھا کھڑا رہتا ہے اپنی جڑ پر اس کو کوئی چیز نہیں جھکاتی یہاں تک کہ ایک بارگی اکھڑ جاتا ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 51
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی مثال کھیتی کے سرکنڈے کی طرح ہے، ہوا اسے جھونکے دیتی رہتی ہے، کبھی سیدھا کر دیتی ہے یہاں تک کہ اس کا مقررہ وقت آ جاتا ہے اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی ہے جو اپنے اس تنے پر کھڑا رہتا ہے جسے کوئی آفت نہیں پہنچتی یہاں تک کہ ایک ہی دفعہ جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 52
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح ارشاد فرمایا۔ البتہ محمود نے بشر سے اپنی روایت میں کہا: کافر کی مثال صنوبر کے درخت کی طرح ہے اور ابن حاتم نے منافق کی مثال کہا: ہے جیسا کہ زہیر نے کہا:۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 53
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 54
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں گرتے وہی مثال ہے مسلمان کی، تو مجھ سے بیان کرو وہ کون سا درخت ہے؟“ لوگوں نے جنگل کے درختوں کا خیال شروع کیا۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے دل میں آیا وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں نے شرم کی (اور نہ کہا:)، پھر لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ بیان فرمائیے، وہ کون سا درخت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے۔“ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا: اگر تو کہہ دیتا کہ وہ کھجور کا درخت ہے (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا) تو مجھے ایسی ایسی چیزوں کے ملنے سے زیادہ پسند تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 55
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دن اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے مجھ سے بیان کرو وہ درخت جس کی مثال مؤمن کی مثال ہے؟“ لوگ ایک درخت کا ذکر کرنے لگے جنگلوں کے درختوں میں سے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میرے دل میں ڈالا گیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے، میں نے قصد کیا کہنے کا لیکن وہاں بڑی عمر والے لوگ بیٹھے تھے میں ڈرا بات کرنے میں۔ جب لوگ چپ ہو رہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 56
مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے، میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ رہا مدینہ تک، میں نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا سوائے ایک حدیث کے۔ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے اتنے میں کھجور کا گابہہ آیا (جس کو عرب کے لوگ کھاتے ہیں، وہ نرم ہوتا ہے) پھر بیان کیا اسی طرح جیسے اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 57
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 58
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے بیان کرو اس درخت کو جو مشابہ ہے یا مانند ہے مرد مسلمان کے جس کے پتے نہیں جھڑتے؟“ ابراہیم بن سفیان نے کہا: امام مسلم نے شاید یوں کہا: «وَتُؤْتِى أُكُلَهَا» (بغیر «لا» کے) لیکن میں نے اپنے سوا اور لوگوں کی روایت میں بھی یوں پایا «وَلاَ تُؤْتِى أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ» اور کوئی آفت نہیں پہنچتی . وہ اپنا میوہ دیتا ہے ہر وقت پر۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میرے دل میں آیا کہ کہوں کہ کھجور ہے لیکن میں نے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا وہ نہیں بولتے تو مجھ کو برا معلوم ہوا بولنا یا کچھ کہنا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تو بول دیتا تو مجھ کو ایسی ایسی چیزوں سے زیادہ پسند تھا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 59
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”شیطان ناامید ہو گیا ہے اس بات سے کہ اس کو نمازی لوگ عرب کے جزیرہ میں پوجیں (جیسے جاہلیت کے زمانے میں پوجتے تھے)۔ لیکن شیطان ان کو بھڑکا دے گا (آپس میں لڑا دے گا)۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 60
اعمش سے بھی اسی سند کے ساتھ روایت ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 61
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ابلیس کا تخت سمندر پر ہے وہ اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے (لوگوں کو بہکانے کے لیے) تو بڑا شخص اس کے پاس وہ ہے جو بڑا فتنہ کرے۔“ (یعنی لوگوں کو بہت بھڑکائے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 62
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے پھر اپنے لشکروں کو عالم میں فساد کرنے بھیجتا ہے۔ سو اس سے مرتبہ میں زیادہ قریب وہ ہوتا ہے جو بڑا فساد ڈالے۔ کوئی شیطان ان میں سے آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا (یعنی فلاں سے چوری کرائی، فلاں کو شراب پلوائی) تو شیطان کہتا ہے: تو نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر کوئی آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ جدائی کرا دی اس میں اور اس کی جورو (بیوی) میں تو اس کو اپنے پاس کر لیتا ہے کہ ہاں تو نے بڑا کام کیا ہے۔“ اعمش نے کہا: اس کو چمٹا لیتا ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 63
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 64
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی نہیں مگر اس کے ساتھ ایک شیطان اس کا ساتھی نزدیک رہنے والا مقرر کیا گیا ہے۔“ لوگوں نے عرض کیا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یا رسول اللہ شیطان ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں میرے ساتھ بھی ہے لیکن اللہ نے اس پر میری مدد کی ہے تو میں سلامت رہتا ہوں اور نہیں بتلاتا مجھ کو کوئی بات سوائے نیکی کے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 65
ترجمہ وہی ہے جو گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ ”ہر ایک آدمی کے ساتھ اس کا ساتھی شیطان اور ساتھی فرشتہ مقرر کیا گیا ہے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 66
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے نکلے رات کو، ان کو غیرت آئی (وہ یہ سمجھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی زوجہ کے پاس تشریف لے گئے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور میرا حال دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ہوا تجھ کو اے عائشہ! کیا تجھ کو غیرت آئی؟“ میں نے کہا: مجھے کیا ہوا جو میری سی زوجہ (کم عمر، خوب صورت) کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے خاوند پر رشک نہ آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”کیا تیرا شیطان تیرے پاس آ گیا؟“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میرے ساتھ شیطان ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے عرض کیا: آپ کے ساتھ بھی ہے یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، لیکن میرے پروردگار نے میری مدد کی حتیٰ کہ میں سلامت رہتا ہوں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 67
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی تم میں سے نجات نہ پائے گا اپنے عمل کی وجہ سے۔“ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ اور آپ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی نہیں مگر اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو ڈھانپ لے اپنی رحمت سے، لیکن تم لوگ میانہ روی کرو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 68
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 69
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کو اس کا عمل جنت میں لے جائے۔“ لوگوں نے عرض کیا: اور نہ آپ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ میں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھ کو ڈھانپ لے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 70
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے ”مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور مغفرت سے مجھ کو ڈھانپ لے۔“ ابن عون نے اپنے ہاتھ سے اپنے سر پر اشارہ کیا اور کہا: ”اور نہ میں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت اور رحمت سے مجھ کو ڈھانپ لے۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 71
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 72
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 73
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میانہ روی کرو۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو میانہ روی کے قریب رہو، یعنی اعتدال کرو۔ اگر اعتدال نہ ہو سکے تو خیر اعتدال کے قریب رہو، افراط، تفریط، غلو اور تعصب نہ کرو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 74
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے اسی کی مثل مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 75
اعمش سے دو سندوں کے ساتھ ابن نمیر کی روایت کی طرح مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 76
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے کہ ”خوش ہو جاؤ یا خوش کرو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 77
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”تم میں سے کسی کو اس کا عمل جنت میں نہ لے جائے گا نہ آگ سے بچائے گا یہاں تک کہ مجھ کو بھی مگر اللہ کی رحمت۔“ (جنت میں لے جائے یا جہنم سے بچائے)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 78
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی تھیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میانہ روی کرو اور جو میانہ روی نہ ہو سکے تو اس کے نزدیک رہو اور خوش رہو اس لیے کہ کسی کو اس کا عمل جنت میں نہ لے جائے گا۔“ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ اور نہ آپ کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ مجھ کو مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ڈھانپ لے مجھ کو اپنی رحمت سے اور جان لو کہ بہت پسند اللہ کو وہ عمل ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 79
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 80
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں سوجھ گئے۔ لوگوں نے کہا: آپ کیوں اتنی تکلیف اٹھاتے ہیں؟ آپ کے تو اگلے اور پچھلے گناہ سب بخشش دئیے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں اللہ کا شکر گزرار بندہ نہ بنوں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 81
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا قیام فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک میں ورم آ گیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: تحقیق! اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرما چکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں اپنے ربّ عزوجل کا شکرگزار بندہ نہ بنوں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 82
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں پھٹ گئے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں؟ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دئیے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”: اے عائشہ! کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔“ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 83
شقیق سے روایت ہے، ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے پر بیٹھے تھے ان کا انتظار کرتے ہوئے، اتنے میں یزید بن معاویہ نخعی نکلے، ہم نے اس کو کہا: عبداللہ کو ہماری اطلاع کر، پس وہ گیا پھر نکلے عبداللہ اور کہنے لگے کہ مجھ کو خبر ہوتی ہے تمہارے آنے کی پھر میں نہیں نکلتا صرف اس خیال سے کہ کہیں تم کو میرے وعظ سے ملال نہ ہو (یعنی سنتے سنتے بیزار نہ ہو جاؤ) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو وعظ سنانے کے لیے موقع اور وقت ڈھونڈتے (یعنی ہماری خوشی کا موقع) دنوں میں اس ڈر سے کہ ہم کو بار نہ ہو۔ (اس لیے کہ اگر دل نہ لگا اور وعظ سنا تو فائدہ کیا بلکہ گنہگار ہونے کا ڈر ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ واعظ کو اسی وقت تک وعظ کہنا چاہیے اور قاری کو اتنا ہی قرآن پڑھنا چاہیے جہاں تک لوگ خوشی سے سنیں اور ان کا دل لگے اور ان پر بار نہ ہو)۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 84
مذکورہ بالا حدیث ان اسناد سے بھی مروی ہے۔ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 85
ابووائل رحمہ اللہ سے روایت ہے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہم کو ہر جمعرات کو وعظ سناتے۔ ایک شخص بولا: اے ابوعبدالرحمنٰ (یہ کنیت ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی) ہم تمہاری حدیث چاہتے ہیں اور پسند کرتے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تم ہر روز ہم کو حدیث سنایا کرو۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم کو جو ہر روز حدیث نہیں سناتا تو اس وجہ سے کہ برا جانتا ہوں تم کو ملال دینا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی دنوں میں کوئی دن مقرر کرتے اس واسطے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برا جانتے تھے ہم کو رنج دینا (یعنی بار ہونا)۔ مکمل حدیث پڑھیئے